Monday, March 2, 2020

اردو شاعری | ذیشان لاشاری | دل ترا بے قرار ہو جائے



دل ترا بے قرار ہو جاۓ





دل ترا بے قرار ہو جائے 
تجھ کو بھی مجھ سے پیار ہو جائے

اور ہنگامِ وصل میری طرح
تو بھی بے اختیار ہو جائے

کیا کیا جائے جب جنوں بن کر
عشق سر پر سوار ہو جائے

گر وہ آئے تو اس کا نقشِ پا
گلستاں کا نکھار ہو جائے

اس نے وعدہ کیا ہے آنے کا
اس کو شاید بخار ہو جائے

یہ جو پت جھڑ ہے دلستاں میں مرے
تو جو آئے بہار ہو جائے

سامنے میرے اک دوشیزہ ہے
عین ممکن ہے ہیار ہو جائے

اس کی باتوں میں آ کے دل کو مرے
 پھر نہ اب اعتبار ہو جائے

پیار وہ ہے کہ اجنبی سے جو
بے  وجہ بے شمار ہو جائے


*________*_______*

Sunday, March 1, 2020

اردو شاعری | ذیشان لاشاری | مرے شب کے اندھیرے میں

مرے شب کے اندھیرے میں دیا ہیں آپ کی آنکھیں







مرے شب کے اندھیرے میں دیا ہیں آپ کی آنکھیں
مرے ظلمت کدے کا آسرا ہیں آپ کی آنکھیں

ہیں کلیاں٬ چاند٬ تارے٬ جھیل یا پھر رات کی رانی
اگر یہ سب نہیں تو اور کیا ہیں آپ کی آنکھیں


ہیں تنہا گر کہیں تو پھر دعا ہیں آپ کی آنکھیں

اگر یہ بند ہیں تو پھر ہیں گویا سیپ میں موتی
اگر وا ہیں تو پھر ہیرا نما ہیں آپ کی آنکھیں

یہ فن پارے کسی قابل مصور کے بھی لگتے ہیں
یا ماہر شیشہ گر کی ساختہ ہیں آپ کی آنکھیں

اگر زاہد ہوں میں تو پھر یہ آنکھیں میری مسجد ہیں
اگر ہوں بادہ کش تو میکدہ ہیں آپ کی آنکھیں

کبھی لگتا ہے یہ آنکھیں کسی بلبل کا نغمہ ہیں
کبھی لگتا ہے خود نغمہ سرا ہیں آپ کی آنکھیں

وفاداری، دل آزاری، نگہ داری، کماں داری
غرض کہ ہر ادا سے آشنا ہیں آپ کی آنکھیں

کبھی لگتا ہیں یہ آنکھیں ہیں قصہ مختصر کوئی
کبھی لگتا ہے لمبی داستاں ہیں آپ کی آنکھیں

ملیں نظریں جو نظروں سے تو پوری ہر تمنا ہو
مری آنکھوں کی واحد مدعا ہیں آپ کی آنکھیں

اگر کہہ دوں فقط یہ مے ہیں تو یہ انصاف نہ ہوگا
حقیقت میں مئے دو آتشہ ہیں آپ کی آنکھیں

سبو، ساقی ،سراحی، شیشہ و مے سے تعلق ہے
جو سچ پوچھو کوئی خالص نشہ ہیں آ پ کی آنکھیں

یہ تشبیہیں بجا ہیں لیکن قصہ مختصر یہ ہے
مرے سارے غموں کی اک دوا ہیں آپ کی آنکھیں

تسلی گر نہ ہو ان ساری باتوں سے، تو کہتا ہوں
مری خاموش الفت کا صلہ ہیں آپ کی آنکھیں

اگر یہ بات بھی چھوٹی لگے تو شان کہتا ہے
خدا کی خاص رحمت کی عطا ہیں آپ کی آنکھیں





*_________*________*

اردو شاعری | ذیشان لاشاری | ڈوب جاتا ہوں ان نگاہوں میں


ڈوب جاتا ہوں ان نگاہوں میں






ڈوب جاتا ہوں ان نگاہوں میں
اک سمندر ہے ان کی آنکھوں میں

ہم کو کیسے بھلا دیا تم نے
تم تو گنتے تھے ہم کو یاروں میں

بحر الفت کی تہہ کو کیا جانیں
غرق جو ہو گئے کناروں میں

ہم سے گستاخیاں ہوئیں سرزد
اب وہ آتے نہیں ہیں خوابوں میں

کیسے دھوکہ نہ کوئی کھائے گا
اتنی لذت ہے ان کی باتوں میں

ہم نے پوچھا کہاں ملو گے پھر
ہنس کے بولے کہ بے وفاؤں میں

سارے ارمان پورے ہو جائیں
موت جو آئے ان کی بانہوں میں

ہم نے دیکھا ہے اس سراپے کو
اتنی مستی کہاں شرابوں میں

اس سے امید ہے محبت کی؟
کچھ ملا ہے کبھی سرابوں میں؟

جاں چھڑکتے تھے جو کبھی ہم پہ
آج بیٹھے ہوئے ہیں گھاتوں میں

میرے قاتل سنا ہے آتے ہیں
پھول کلیاں بچھا دو راہوں میں

اب وہ چپ ہو کہ سب کی سنتا ہے
رعب تھا شان جس کی باتوں میں




*_________*________*

اردو شاعری | ذیشان لاشاری | امید کا چراغ

                     امید کا چراغ بجھانے نہیں دیا




امید کا چراغ بجھانے نہیں دیا
مایوسیوں ساتھ ہوا نے نہیں دیا

برسات میں یوں بھیگا ملن چاہتے تھے  جو
ان کو تو بارشوں نے ہی آنے نہیں دیا

چل آزما کے ایک یہ نسخہ بھی دیکھ لیں
آرام آج تک تو دوا نے نہیں دیا

آئے تو ہم کو راہ سے اپنی ہٹا گئے
رستہ سجا رہے تھے سجانے نہیں دیا

محفل میں یوں تو سب کی وہ سنتے تھے بات پر
ہم کو تو دل کا حال سنانے نہیں دیا

ہم پہل کر بھی لیتے کچھ مسئلہ تو نا تھا
لیکن انا نے آگے یوں جانے نہیں دیا

بوسے کا ہم کو کیسے خیال آئے ہمنشیں
ہم کو تو اس نے پاؤں دبانے نہیں دیا

اک بار جو لگایا سو کافی ہوا ہمیں
جی نے دوبارہ دل یہ لگانے نہیں دیا

ہے تاج سر یہ میرا یہ کہہ کر زمین نے
یہ نقش پا صبا کو  مٹانے نہیں دیا

سب سستیاں ہیں اپنی یہ مانا ہے ہم نے شان
ایسے نہیں کہ موقع خدا نے نہیں دیا





*__________*___________ *